دین کی اشاعت लेबलों वाले संदेश दिखाए जा रहे हैं. सभी संदेश दिखाएं
دین کی اشاعت लेबलों वाले संदेश दिखाए जा रहे हैं. सभी संदेश दिखाएं

मंगलवार, 5 अगस्त 2014

دین مُلّا فی سبیل اللہ فساد

مُلّا،مولانا،خطیب،مُبلّغ،مُفسّر،مُحدّث،مُقرّر،ذاکر،دانشور،فلسفی اور عالم ِدین کے     درمیان فرق کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ یہ وہ مُلّا اور مُلّائیت ہے جس نے اسلام اور مسلمان کودشمن اسلام سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے،جس نے دین فروشی کی ہے،جس نے محمؐد و اُمّت محمدؐ کے نام کو بلیک میل کیا ہے،جس نے مسلمان کو دہشت گرد مشہور کروایا ہے، جو زمین پر رہ کر جنت کا سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے،جو دین میں اتحاد کا نہیں نفاق کا موجب ہے کہ اسکی دوکانداری اسی طرح چلتی ہے،جو اہل علم اور اہل فکر کا مخالف ہے، جس نے عام مسلمان کو حصول علم سے اس لیئے دور رکھا ہوا ہے کہ اگر عام مسلمان بھی علم حاصل کر گیا تو اسکا کیا بنے گا۔ وہ مُلّا جو یہ بے تکی دلیل دیتا ہے کہ علم دین کی ترسیل صرف اسکا اور اسکی جماعت کا حق ہے۔ مُلّا اور مُلّائیت ایک زہر ہے جو ہم اپنے ہاتھوں خود پی رہے ہیں-
          یہ بات سامنے کی ہے کہ دین کی اشاعت و تدریس میں ہمارے علماء کرام کا جتنا ہاتھ ہے ۔ اس کی حصہ داری کا کوئی اور متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ان کی عزت و تکریم ہم پر واجب ہے ۔ مگر فکری ذہن رکھنے والوں کو اس بات کا بھی حق ہے    کہ وہ سوچیں کہ مسلمانوں میں تقسیم در تقسیم کا عمل کیونکر پیدا ہوا ۔   قرآن      کی  تفہیم پر اتنے اختلافات کیوں ہیں ۔ ایک عام مسلمان صرف قرآن کے ناظرے تک کیوں محدود ہوا ۔ قرآن فہمی سے دوری کا سبب کیا ہے اس انتشار (کے اوس) سے نکلنے کی دوہی صورتیں ہیں۔پہلی صورت یہ کہ   
اگر ہم مسلمان کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں اس پر یقین ہونا چاہیئے کہ مسلم قومیت کا معیار اشتراکِ دین ہے، اور ہمیں اس معیار کے مطابق ایک اُمّت اور ایک ملّت بننا ہے۔اور اگر ہم اس پر یقین نہیں رکھتے کہ قومیت کا معیار اشتراکِ دین ہے تو ہمیں کھلے بندوں اس کا اعتراف کرنا چاہیئے۔  
                                         

۔منافقت کی زندگی جراءتوں کومفقود اور حوصلوں کو پست کردیتی ہے۔ایک طبقہ

The apartheid wall> Palestine

ہمارے ہاں مذہب پرستوں کا ہے۔یہ قرآن کے متعلق یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ یہ دنیا کی بے مثل و بے نظیر کتاب ہے، جس میں زندگی کے تمام معاملات کا بہترین اور مکمل حل دیا گیا ہے، اور دوسری طرف ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ یہ کتاب (معاذ اللہ) تضادات سے بھری ہوئی ہے، نامکمل ہے ، مبہم ہے، غیر واضح ہے، غیر مربوط ہے، ناقابلِ فہم ہے۔ ظاہر ہے کہ جو قوم اپنی آسمانی     کتاب کے متعلق اس قسم کے متضاد عقائد کی حامل ہو وہ زندگی کے دیگ
ر معاملات میں کس طرح یک سو
ہوسکتی ہے۔                                                            

     دوسری  صورت یہ کہ اگرہمیں مسلمان قوم کی حیثیت سے جینا ہے تو ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم قرآن کی تعلیم کو عام کردیں جو پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔ لیکن قرآن کی تعلیم سے مراد وہ تعلیم نہیں جو ہمارے مذہبی مدارس میں "دینی علوم" کی شکل میں دی جاتی ہے اور جو طلباء کو قرآن سے بیگانہ ہی نہیں بنا دیتی، بلکہ اس پر ایمان بھی ختم کر دیتی ہے۔قرآن کی تعلیم ایسی ہونی چاہیئے کہ متعلّم ، علیٰ وجہِ البصیرت یہ محسوس کرنے لگ جائے-

 بلا شک و شبہ یہ کتابِ عظیم نوعِ انسانی کیلئے واحد اور مکمل ضابطۂ حیات ہے اور انسانیت کی مشکلات کا صحیح حل اس کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتا۔اس کا دل اس پر گواہی دے کہ اس ضابطۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے سے دنیا اور آخرت کی سرفرازیاں اور کامرانیاں نصیب ہوتی ہیں اور اس کے خلاف جانے 
 سے فرد اور قوم کی انسانی زندگی کی اسی طرح موت واقع ہوجاتی ہے۔     یوں  

یوں نہیں کہ؎
نہ تن میں خوں فراہم، نہ اشک آنکھوں میں  
نمازِ شوق واجب ہے!  ! بے وضو ہی سہی